تفسیر؛ باتوں کو کھول کر رکھنا تاکہ معنی سمجھ میں آجائے

IQNA

تفسیر اور مفسرین کا تعارف / 1

تفسیر؛ باتوں کو کھول کر رکھنا تاکہ معنی سمجھ میں آجائے

9:50 - August 25, 2022
خبر کا کوڈ: 3512578
ایکنا تہران- «تَفْسير» اسلامی علوم میں اس معنی میں ہے کہ قرآنی آیات سے اصل معانی کو سامنے لایا جائے اور اسلامی علوم میں قرآنی کریم کے حوالے سے یہ بڑا موضوع ہے۔

ایکنا نیوز- لفظ «فسر» کی جڑ قدیم معانی میں آگ پر گرم کرنا اور بعض معنوں میں تعبیر خواب سے لیا گیا ہے۔

قرآن میں حروف مقطعات اور بعض دیگر امور کے علاوہ اکثر الفاظ کے ایک ظاہری معنی سمجھ میں آجاتا ہے البتہ جو تفسیر میں کہا جاتا ہے اس کے ثانوی مطلب یا معنی کو کہا جاتا ہے جو غیر معمولی معنی کو مہارت سے نکالا جاتا ہے۔

 

اس حوالے سے پہلے آثآر میں عنوان «تفسیر القرآن» وہ تالیفات ہیں جو اصحاب پیغمبر سے بلا واسطہ نقل کیا گیا ہے، یہ تالیفات و آثار تیسری صدی تا پنجم ہجری قمری صدی  ( 750 تا 770 میلادی) سے متعلق ہیں۔

ان آثآر کی دوسری صفت میں مختلف اصحاب سے منقول معنی کے علاوہ تفسیری نظریات بھی درج کیے گئے۔ ایسے آثار عراق، مکہ اور خراسان میں دیکھے گئے، ان علاقوں میں جدید نظریات کی جڑیں موجود تھیں جو مدینہ و شام میں یہ حالات میسر نہ تھے۔

 

اسلامی دنیا میں مدارس قایم کرنے کے بعد چوتھی صدی کے آخر میں جامع الازھر، مدارس نظامیہ اور دیگر درجنوں مدارس میں تبدیلیوں کے بعد روایتی مدارس میں جدید سسٹم نافذ ہونے لگے۔

 

تفسیرلکھنے والے مفسرین میں علما، متكلمین، فقیه، محدث و ادیب، پانچویں ہجری قمری (۱۱ عیسوی) اعتراف کرتے تھے کہ قرآن فھمی کے لیے صرف ایک زاویے سے دیکھنے کی رسم کو چھوڑنا ہوگا۔

چھٹی ہجری قمری تک اگرچہ تفسیر مختلف منابع سے نکلتی تھی لیکن تفسیر کا ایک مستقل منبع واضح نہ تھا اور چھٹی ہجری قمری میں تفسیر بعنوان ایک مستقل ڈسپلن جدید زاویوں کو طلب کرنے لگا۔

مفسروں کو شدت سے تفسیر کے مبانی و اصول کے لیے ترتیب کا احساس ہونے لگا اور اسی طرح مختلف سبجیکٹ کے درمیان ایک ڈسپلن اور ڈھانچے اور ان میں ہم  آہنگی کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور اس حوالے سے بعض مفسروں کی جانب سے اٹھائے گئے کاوشوں کو بعد میں «علوم قرآنی» کا نام دیا گیا۔/

نظرات بینندگان
captcha