تخت لاہور اور تکفیریت

IQNA

تخت لاہور اور تکفیریت

8:58 - April 03, 2022
خبر کا کوڈ: 3511607
کالعدم تنظیموں کو ووٹ بینک کے لیے اہم معاملات میں شامل کرنا ملکی سالمیت کے لیے خطرناک ہوگا۔

وطن عزیز پاکستان میں تکفیریت کے ناسور نے بے پناہ نقصانات سے دوچار کیا ہے، خاص طور پر پنجاب میں گذشتہ کئی دہائیوں سے فرقہ پرست و تکفیری عناصر کسی نہ کسی صورت میں اپنے مزموم عزائم کی تکمیل میں سرگرم رہے ہیں۔ ان عناصر کو کئی مواقع پر حکومتوں کی سرپرستی یا خاموش حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ خاص طور پر مسلم لیگ نون کے ادوار حکمرانی میں کالعدم فرقہ پرست جماعت سپاہ صحابہ کو ریاستی آشیرباد تسلسل کیساتھ دیکھنے میں آئی ہے، تاہم گذشتہ عام انتخابات کے نتیجے میں پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ پی ٹی آئی اپنا لبرل چہرہ سامنے لانے کی کوشش میں شدت پسند مذہبی عناصر سے مسلم لیگ نون کے مقابلے میں خود کو دور رکھے گی، تاہم عثمان بزدار کی حکومت نے بھی پنجاب میں تکفیری عناصر کو نہ صرف اپنا اتحادی بنانے کی روش اپنائی بلکہ بعض معاملات میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے تو سابقہ صوبائی حکومتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

 

راہ حق پارٹی کے نام سے سامنے آنے والے کالعدم سپاہ صحابہ کے نئے سیاسی چہرے کو بزدار حکومت نے اپنے پروں تلے پناہ دی، کئی ’’خفیہ سمجھوتے‘‘ بھی ہوئے، جن کے اثرات پنجاب میں آنے والی سیاسی تبدیلی کے بعد سامنے آرہے ہیں۔ یاد رہے کہ مولوی معاویہ اعظم نے جھنگ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی کے بعد اس پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا، جو اسے صوبائی وزارت دے گی۔ اس وقت وزیراعظم عمران خان کے ’’رفیق خاص‘‘ جہانگیر ترین اور شہباز شریف نے مولوی معاویہ اعظم سے رابطہ کیا اور اپنی اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔ اس موقع پر نون لیگ کی قیادت نے رانا ثناء اللہ کو جھنگ بھی بھیجا اور اسی طرح تحریک انصاف کا نمائندہ بھی مولوی معاویہ اعظم سے آکر ملا۔ پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت قائم ہونے کے بعد معاویہ اعظم نے حسب توقع و خواہش پی ٹی آئی کی چھتری تلے آنے کو ہی ترجیح دی۔

 

واضح رہے کہ مولوی معاویہ اعظم کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں جنوری 2016ء کو گرفتار کیا گیا تھا، تاہم نواز شریف کی نااہلی کے دو روز بعد یعنی 30 جولائی 2017ء کو رہا کر دیا گیا تھا۔ جون 2018ء میں الیکشن کمیشن نے معاویہ اعظم کی نااہلی کے بارے میں درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔ بزدار حکومت نے اپنی اتحادی جماعت راہ حق پارٹی (کالعدم سپاہ صحابہ) کو کئی سرکاری عہدے دیئے اور ایک کالعدم و شدت پسند جماعت ہونے کے باوجود اس کے کارکنان و عہدیداران کیخلاف کسی قسم کی کارروائیاں نہ کئے جانے کی یقین دہائی کرائی گئی۔ ان ’’یقین دہانیوں‘‘ کے ثبوت اس وقت منظر عام پر آنے لگے، جب عثمان بزدار کی چھٹی ہوئی۔ سپاہ صحابہ کے آفیشل سوشل میڈیا اکاونٹس سے عثمان بزدار کی خدمات کو واضح الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا اور برملا اس امر کا اظہار کیا گیا کہ ’’سپاہ صحابہ کی 35 سالہ تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا کہ جب آپ وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو ہمیں کسی قسم کے نقصان کا سامنا نہیں ہوا، ورنہ تخت لاہور پر جو بھی تخت نشین آیا، سب کے ہاتھ ہمارے خون سے رنگین تھے۔‘‘

 

علاوہ ازیں عثمان بزدار کے استعفے کو راہ حق پارٹی نے افسوسناک قرار دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ ہم بزدار حکومت کے اتحادی تھے، تاہم اب جب وہ مستعفی ہوچکے ہیں تو ہم اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ اب نئے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ نامزد ہوچکے ہیں، تاہم سپیکر پنجاب اسمبلی کی ذمہ داری کے دوران نامزد وزیراعلیٰ پنجاب کے کالعدم جماعت کیساتھ روابط اور ہمدردیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ متنازعہ نصاب تعلیم اور قراردادوں کے حوالے سے پرویز الہیٰ کی حمایت تکفیری جماعت کیساتھ رہی ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ کالعدم فرقہ پرست جماعت کو تخت لاہور نے اپنی مجبوری بنا لیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ملک میں امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے تناظر میں بات کی جائے تو یہ روش انتہائی نقصان دہ ہے، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) دونوں ملکی سطح کی سیاسی جماعتیں ہیں، جن کا ووٹ بینک مسلکی تفریق سے بالاتر ہے، لہذا دونوں جماعتوں کی قیادت کو اپنی اس روش پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ تمام مکاتب فکر سے مسترد شدہ ان تکفیری عناصر کو سپورٹ کرنا وطن عزیز کے استحکام کیلئے خطرہ سے کم نہیں۔

سید عدیل زیدی

نظرات بینندگان
captcha